جہاں بات پوری ہو جاتی ہے، وہاں چھوٹا سا
دائرہ لگا دیتے ہیں۔ یہ حقیت میں گول (ت) جو
بصورت (ۃ) لکھی جاتی ہے۔ اور یہ وقف تام کی
علامت ہے یعنی اس پر ٹھہرنا چاہیئے، اب (ۃ) تو
نہیں لکھی جاتی۔ چھوٹا سا دائرہ ڈال دیا جاتا
ہے۔ اسکو آیت کہتے ہیں۔ دائرہ پر اگر کوئی
اور علامت نہ ہو تو رک جائیں ورنہ علامت کے
مطابق عمل کریں۔
|
﴿﴾
|
یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس موقع پر غیر
کوفیین کے نزدیک آیت ہے۔ وقف کریں تو اعادہ
کی ضرورت نہیں۔ اس کا حکم بھی وہی ہے جو دائرہ
کا ہے۔
|
﴿۵﴾
|
یہ وقف لازم کی علامت ہے۔ یعنی یہاں ٹھہرنا
ضروری ہے، ورنہ کلام کے مفہوم کے خلط ملط ہو
جانے کا اندیشہ ہے۔
|
﴿م﴾
|
وقف مطلق کی علامت ہے۔ اس پر ٹھہرنا چاہیئے۔
یہ علامت وہاں ہوتی ہے جہاں مطلب تمام نہیں
ہوتا اور بات کہنے والا ابھی کچھ اور کہنا
چاہتا ہے۔
|
﴿ط﴾
|
وقف جائز کی علامت ہے۔ یہاں ٹھہرنا بہتر اور
نہ ٹھہرنا جائز ہے۔
|
﴿ج﴾
|
علامت وقف مجوّز کی ہے۔ یہاں نہ ٹھہرنا بہتر
ہے۔
|
﴿ز﴾
|
علامت وقف مرخص کی ہے۔ یہاں ملا کر پڑنا
چاہیئے لیکن اگر کوئی تھک کر ٹھہر جائے تو
رخصت ہے۔معلوم رہے کہ (ص) پر ملا کر پڑھنا (ز)
کی نسبت زیادہ ترجیح رکھتا ہے۔
|
﴿ص﴾
|
الوصل اولیٰ کا اختصار ہے۔ یہاں ملا کر پڑھنا
بہتر ہے۔
|
﴿صلے﴾
|
قبل علیہ الوقف کا خلاصہ ہے۔ یہاں ٹھہرنا نہیں
چاہیئے۔
|
﴿ق﴾
|
قَد یو صل کا مخفف ہے۔ یہاں ٹھہرا بھی جاتا ہے
اور کبھی نہیں۔ بوقت ضرورت وقف کر سکتے ہیں۔
|
﴿صل﴾
|
یہ لفظ قِف ہے ۔ جس کے معنی ہیں ٹھہر جاؤ۔ اور
یہ علامت وہاں استعمال کی جاتی ہے، جہاں پڑھنے
والے کے ملا کر پڑھنے کا احتمال ہو۔
|
﴿قف﴾
|
سکتہ کی علامت ہے۔ یہاں کسی قدر ٹھہرنا چاہیئے
مگر سانس نہ ٹوٹنے پائے۔
|
﴿س﴾ یا ﴿سکتہ﴾
|
لمبے سکتہ کہ علامت ہے۔ یہاں سکتہ کی نسبت
زیادہ ٹھہرنا چاہیئے لیکن سانس نہ توڑیں۔ سکتہ
اور وقفہ میں یہ فرق ہے کہ سکتہ میں کم ٹھہرنا
ہوتا ہے، وقفہ میں زیادہ۔
|
﴿وقفہ﴾
|
لا کے معنی نہیں کے ہیں۔ یہ علامت کہیں آیت
کے اوپر استعمال کی جاتی ہے اور کہیں عبارت کے
اندر۔ عبارت کے اندر ہو تو ہر گز نہیں ٹھہرنا
چاہیئے۔ آیت کے اوپر ہو تو اختلاف ہے۔ بعض کے
نزدیک ٹھہرنا چاہیئے بعض کے نزدیک نہیں ٹھہرنا
چاہیئے لیکن ٹھہرا جائے یا نہ ٹھہرا جائے اس
سے مطلب میں خلل واقع نہیں ہوتا۔
|
﴿لا﴾
|
کذلک کا مخفف ہے، اس سے مراد ہے کہ جو رمز اس
سے پہلی آیت میں آ چکی ہے، اس کا حکم اس پر
بھی ہے۔
|
﴿ک﴾
|
یہ تین نقاط والے دو وقف قریب قریب آتے ہیں۔
ان کو معانقہ کہتے ہیں۔ کبھی اس کو مختصر کر
کے (مع) بھی لکھ دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے
کہ دونوں وقف گویا معانقہ کر رہے ہیں۔ ان کا
حکم یہ ہے کہ ان میں سے ایک پر ٹھہرنا چاہیئے
دوسرے پر نہیں۔ ہاں وقف کرنے میں رموز کی قوت
اور ضعف کو ملحوظ رکھنا چاہیئے۔
|
﴿ۛ
﴾
|